صبح کیسی ہے وہاں، شام کی رنگت کیا ہے
اب ترے شہر میں حالات کی صورت کیا ہے
اک آذار دھڑکتا ہے یہاں سینے میں
اب تجھے کیسے بتایں کہ محبت کیا ہے
حکم دیتا ہے تو آواز لرز جاتی ہے
جانے اب کے مرے سالار کی نیت کیا ہے
یہ جو میں پیڑ اگانے میں لگا رہتا ہوں
میں سمجھتا ہوں مری پہلی ضرورت کیا ہے
مرا تو یہ ہے کہ میں بکھر ہوا ہوں اب تک
تو بتا ! مجھ سے بچھر کر تری حالت کیا ہے
آنکھ میں اڑتی ہوئی دھول بتا دیتی ہے
دل میں آئے ہوے بھونچال کی شدت کیا ہے
لمھ لمھ میں کچھا جاتا ہوں اس کی جانب
جانے اس مٹی سے اظہر مری نسبت کیا ہے