دکھ میں خود کو صبر کا سمندر بنا لیتے ہیں
اپنے خلوص سے جگہ دلوں کےاندر بنا لیتے ہیں
تنہائی جیسی بلا کو دور رکھنے کی خاطر
اپنی حسین یادوں کا ایک کھنڈر بنا لیتے ہیں
اسے کب اور کس تاریخ کو ہمیں ملنا ہے
اس کے لیے سفید کاغذ پر کیلنڈر بنا لیتے ہیں
لوگوں سے ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر
ہرے کپڑےپ ہن کر خود کو قلندر بنا لیتے ہیں
دشمنوں کے دلوں میں ہمارا خوف کیوں نا ہو
وقت آنے پر اپنے قلم کو خنجر بنا لیتے ہیں