ڈوبتے رہے پھر ابھرتے رہے
مرتے رہے صبر کرتے رہے
احساسِ سود و زیاں کے لئے
بگڑتے رہے اور سنورتے رہے
حالات کے ہر ستم کو خوشی سے
دامن میں اپنے بھرتے رہے
اے زندگی ہم تیری جستجو میں
جیتے رہے کبھی مرتے رہے
نویدِ سحر شب کا انجام ہے
یہی سوچ کر صبر کرتے رہے
ڈوبتے رہے پھر ابھرتے رہے
مرتے رہے صبر کرتے رہے