صدائیں حق کی لگا کے ہم نے سِتم گروں کو رٌلا دیا
جو ٹمٹماتے چراغِ حق تھے اٌنہیں پھر روشن کرا دیا
ملے نہ کوئی کہیں بھی مظلوم یہی ہے اپنی آرزو
کوئی بھی مظلوم مل گیا بھی تو اُس کا حق ہی دِلا دیا
چمن میں اپنے عزیز گل ہو تو کانٹوں سے بھی نباہ ہو
کہ غم زدہ کے تو آنسو پونچھے اٌسی کی خوشیاں بڑھا دیا
جہاں میں جتنے ہوئے ستم گر کوئی پکڑ سے نہ بچ سکا
لگے جو ٹھوکر سنبھل ہی جائیں سبق یہ سب کو پڑھا دیا
نہ کوئی تکلیف ہو کسی کو اسی کی کوشش تو اپنی ہو
کبھی کسی کی نہ آہ نکلے یہ خود پہ لازم بنا دیا
کبھی زمانہ بھی روٹھ جائے تو اثر مغموم کیوں ہی ہو
رہا ہمیشہ وہ حق پہ قائم اُسی نے ہمت بڑھا دیا