منافقوں پہ کبھی اعتبار نہ کرنا
خود اپنی ذات کو ان کا شکار نہ کرنا
بنے نہ دوست جو دل سے وہ دوست ہی کیا ہے
تم اس سے ملنا مگر جاں نثار نہ کرنا
سزا گناہوں کی ہوتی ہے پیار کی تو نہیں
صلہ وفا کا جفا ہو تو پیار نہ کرنا
جب حسن والوں کی فطرت میں بے وفائی ہے
حسیں اداؤں پہ دل کو نثار نہ کرنا
رکا نہ ببہتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھ کے بھی
اب اس کے جانے پہ دل سوگوار نہ کرنا
رہی نہ اس کو ضرورت وہ ملنے کیوں آئے
اب اس کا کل کی طرح انتظار نہ کرنا
جو رو کے مانگی دعائیں بھی نہ اثر لائیں
تو اپنی آنکھیں یونہی اشکبار نہ کرنا
ہر ایک رشتے کو پل بھر میں توڑ دیتا ہے
یوں تنگدست ہی رہنا ادھار نہ کرنا
ہے دشمنی میں شرافت کا ایک یہ پہلو
خموش بیٹھے مخالف پہ وار نہ کرنا
سلگ رہی ہے کناروں پہ آگ ہر جانب
تو ایسے حال میں دریا کو پار نہ کرنا
جو نیکیو ں کا تمھاری نہ اعتراف کرے
تم ایسے شخص پہ کوئی ایثار نہ کرنا