ضبط کا مسکن تھکن سے چُور ہے
سانس کا بندھن تھکن سے چُور ہے
خوشبوؤں سے تازگی آئے تو کیوں
ہجر میں گلشن تھکن سے چُور ہے
دھڑکنوں کے ہیں قدم بکھرے ہُوئے
آج من آنگن تھکن سے چُور ہے
بہہ رہا ہے مثلِ آبِ بے سکوں
سوچ کا آہن تھکن سے چُور ہے
اس قدر عاشی مسافت دل نے کی
دل کی ہر دھڑکن تھکن سے چُور ہے