ضرورت کے سبب رشتے بنا کے رکھتے ہیں
عجیب لوگ ہیں دل میں برا بھی رکھتے ہیں
قیامت پھر قیامت ہے ادا میں ہو یا دنیا میں
ادائیں، زلزلے اب سب ہی مجھ کو یکساء لگتے ہیں
حسیں ہاتھوں کو جب پکڑا تھا میں نے اس کے وہ بولی
ذرا سا دور رہ لو تم ہمیں سو لوگ تکتے ہیں
ایسا مالک ہے میرا نہ مانگو پھر بھی دیتا ہے
وہ کیسے لوگ ہیں جو لوگوں کے آگے سسکتے ہیں
جبیں ٹیکی زمیں پر تو ہوا ہر فکر سے غافل
پریشاں حال ہیں پھر بھی یہ سجدے سے جھجکتے ہیں
زمانے سے چھپا کر ہم نے رکھا ہے اسے احسن
وہ قرآں جس سے گمراہ لوگ سہی رستہ پکڑتے ہیں