ہر ایک سمت فغاؤں کا سلسلہ ہے رواں
قدم قدم پہ سزاؤں کا سلسلہ ہے رواں
وفا تو مل نہ سکی تجھ سے زندگی میں ہمیں
ہاں اب بھی تیری جفاؤں کا سلسلہ ہے رواں
نکل کے قید سے بلبل تجھے چمن نہ ملا
تری اداس نواؤں کا سلسلہ ہے رواں
جلا رہے دیے آس کے تو کیا حاصل
کہ دل شکن سی ہواؤں کا سلسلہ ہے رواں
طبیب شہر کے ہاتھوں میں اب شفا نہ رہی
بنا اثر کے دواؤں کا سلسلہ ہے رواں
ملیں ہیں خاک میں سب فصل گل کی امیدیں
چمن میں اب بھی خزاؤں کا سلسلہ ہے رواں
صلیب وقت پہ مصلوب ہو کے بھی زاہد
وطن سے اپنی وفاؤں کا سلسلہ ہے رواں