ناؤ اپنی ڈبو رہا ہے تو
جاگتا ہے کہ سو رہا ہے تو
آرزو مندِ شادمانی دیکھ!
فصل اداسی کی بو رہا ہے تو
تیرے کندھوں پہ کیا ہے کچھ بتلا
بوجھ یہ کس کا ڈھو رہا ہے تو
جانتا بھی ہے، کچھ نہیں حاصل
پھر بھی پانی بلو رہا ہے تو
مجھ سے پھولوں کی ہے توقع اور
آپ کانٹے چبھو رہا ہے تو
آج دیکھا ہے تجھ کو غصّے میں
’’کتنا دلچسپ ہو رہا ہے تو‘‘
کچھ خبر ہے، فصیحؔ شعروں میں
درد اپنا سمو رہا ہے تو