جہاں کے رنج سہے پھر بھی پیار کرتے رہے
خذاں تھی زیست میں لیکن بہار کرتے رہے
فقط وفا ہی ہمارا نہیں رہا شیوہ
وفا میں جان بھی اپنی نثار کرتے رہے
خبر تھی وہ نہ پلٹ کر کبھی بھی آئیں گے
تمام عمر مگر انتظار کرتے رہے
بچھڑتے وقت یونہی مسکرا دیے تھے کبھی
بچھڑ کے آنکھوں کو پھر اشکبار کرتے رہے
طلسم کیا تھا ان آنکھوں میں ہم نے نہ جانا
بس ان کی یاد میں دل بے قرار کرتے رہے
ہزار بار کسی سے فریب کھایا ہے
ہزار بار مگر اعتبار کرتے رہے
سماج کے بھی مسائل بیاں کیے زاہد
ہم اپنے شعروں میں سب آشکار کرتے رہے