وہ بو لے ا ٹھ کے ظالماں
تم شا عری نہ کیا کرو
یہ میرے نصاب کی کتاب ہے
تم ہر گز نہ اس کو پڑھا کرو
مجھے عشق ہے تیرے خیال حجاب سے
تم بے حجاب تخیل نہ کیا کرو
میں خطاب ابن خطاب تھا
ا پنے دور میں لا جواب تھا
مجھے وشق تھا کتاب سے
اور رسول پاک سے
اک اشا رے پہ انکے میں
میں لٹاتا تھا جسم و جاں
اے جان من مر تا تھا مٹتا تھا
اور لڑ کے شہدا بن جا تا تھا
وہ بو لے ا ٹھ کے بے و فا
بس تم شا عری نہ کیا کرو
پھر یوں ہوا کہ میں لٹ گیا
میں بہک گیا میں بھٹک گیا
مجھے سرور آ گہی نے گھا ئل کیا
اور اک عورت کے آگے جھکا د یا
اب میکدہ میرا مد ینہ بنا
اور جا ہلوں میں میرا شمار ہوا
میں سیاہ بخت سیاہ کار ہوا
مجھے عشق مجازی نے مار د یا
اب میں بھولا بھٹکا مسا فر ٹہرا
اور مجھے کو ئی ر ہنما نہ مل سکا
وہ بو لے اٹھ کے محر ماں
تم شا عری نہ کیا کرو
اس دور میں شا عری
ہے بے شوری اور اک گناہ
اے جان من اے جان جاں
تم شا عری نہ کیا کرو
بس تم شا عر ی نہ کیا کرو