ظلم دنیا نے کم کیے کوئ
پھر بھی زندہ ہے دیکھیے کوئ
زندگی کیوں نہ درد بن جائے
اشک چپ چاپ جب پیے کوئ
ضبط الفت کی بھی کوئ حد ہو
اپنے لب کب تلک سیے کوئ
نہ تمنا ہو دل میں جینے کی
تو بھلا کس لیے جیے کوئ
جنگلوں میں نکل گیا آ خر
وحشتوں کا جہاں لیے کوئ
تیز چلنے لگی ہوا زاہد
جب جلا نے لگا دیے کوئ