ظلمت شب کو نہ سمجھے کچھ تیری امید کا جگنو
تیری نگاہ میں ٹھہرا ہے جو خورشید کا جگنو
جس راہ پر دیر تلک چلے بہت چلے پلٹ آئے
کیونکر ہو وہاں اب تیری تقدیر کا جگنو
جب گفتگو کے سبھی مرحلے تمام ہوئے
پھر اچانک کیسا ہے یہ تمہید کا جگنو
منزلیں بدلیں رستے بدلے ہم بھی بدل گئے
اب نہ پاس وفا ہے کوئی نہ وعدہ و وعید کا جگنو