زندگی کے رستوں کی ٹھوکروں سے ڈرتے ہیں
پنجروں میں رہنے والے گھونسلوں سے ڈرتے ہیں
ہر سمے ڈراتا ہے انکو خوف اپنا ہی
ظلمتوں کے سوداگر آئینوں سے ڈرتے ہیں
آج کی سیاست کا یہ عجیب پہلو ہے
گلستاں کے رکھوالے کونپلوں سے ڈرتے ہیں
اس لئے تو لیلی نے چلمنیں گرا لی ہیں
قیس اس زمانے کے وحشتوں سے ڈرتے ہیں
ہر شجر نے لوٹا ہے اعتماد ہی ایسا
طائر اب درختوں کی ٹہنیوں سے ڈرتے ہیں
بے سراغ رستے ہیں شاطروں کے ہاتھوں میں
گھر سے کس طرح نکلیں راہبروں سے ڈرتے ہیں