مسلسل کام کی عادت مجھے تھکنے نہیں دیتی
مزا آرام کا مجھ کو ذرا چکھنے نہیں دیتی
میری فطرت نے غیروں کو میرے اپنے بنا دیا
میری چاہت مگر مجھ کو میرے اپنے نہیں دیتی
پریشانی اداسی اور فکروں سے بھری قسمت
کسی خوشی کو میرے دل میں پنپنے نہیں دیتی
مسلسل برفباری نے مجھے یوں سرد کر ڈالا
شراروں کی تپش بھی اب مجھے تپنے نہیں دیتی
میری پر شوق طبیعت دفتروں سے دل لگا بیٹھی
بہت سے دن کتابیں طاق میں رکھنے نہیں دیتی
مجھے بیدار راتیں ایک پل سونے نہیں دیتی
ادھوری نیند بھی اب تو مجھے سپنے نہیں دیتی