صنعت کی چِمنیوں سے دھواں تو نکل گیا
ایندھن کے طور پر وہاں مزدور جل گیا
آجر کے ہاتھ پر نیا سورج نکل گیا
مزدور شام ہونے سے پہلے ہی ڈھل گیا
بھر کر تجوری سیٹھ کا دل بھر نہیں سکا
مزدور چند سکے لیے اور بہَل گیا
مجبور اس قدر تھا کہ پگھلی ہیں ہڈیاں
آجر ہے خوش کہ آج بھی لوہا پگھل گیا
عاشی بدل نہیں سکا مزدور کا نصیب
زردار و زر نصیب کا سب کچھ بدل گیا