الفتوں کے نشے میں چُور ہو کر
تا اَبد مجھ کو لڑکھڑانا تھا
وہ سمندر تھا اور میں ساحل
آخر اِک دِن بچھڑ ہی جانا تھا
شبِ وصل اور مفارقت کا زہر
اُن لبوں نے یہی پِلانا تھا
دِل کا رشتہ تو تھا مگر ہم نے
کب بھلا عمر بھر نبھانا تھا
جانتا تھا میں ہار جاؤں گا
پھر بھی یہ مشکلوں سے مانا تھا
بس جدائی تو اِک بہانہ تھی
آخرش گھر ہی لوٹ جانا تھا
چلو اچّھا ہوا یہاں آئے
پھر بھی تو میکدے ہی آنا تھا