عجب خواب دیکھا ہے کل رات میں نے
عجب ایک دنیا ہے آباد جس میں
عجب سا سماں ہے عجب سی فزاں ہے
عجب سی زمیں ہے عجب آسماں
کئی میل پھیلا ہوا ایک جنگل
وہ جنگل کہ جس میں بہت دور تک بھی
کہیں زندگی کا ہے امکان کوئی
نہ کوئی پتہ ہے
نباتات ہیں نہ جمادات کوئی
نہ حیوان ہیں یاں نہ انسان کوئی
فقط ایک ویرانی حد نظر تک نظر آ رہی ہے
مگر ایک دریا وہیں پر رواں ہے
وہ دریا کہ جس میں ہیں گزرے دنوں کے کئی راز پنہاں
اسی کے کنارے پہ تنہا ہراساں
میں کب سے کھڑا ہوں
اسے پوچھتا ہوں
یہ جنگل ہے ویران و سنسان جتنا
یہ پہلے کہاں تھا
کہ پہلے تو اتنی اداسی نہیں تھی
یہاں زندگی تھی
وہ پودے وہ سبزے وہ ندیاں وہ جھرنے
درخت اور درختوں کی شاخوں پہ گاتے ہوئے وہ پرندے
وہ سب کچھ کہاں ہے؟
وہ گل رو گل اندام و گل بند میرا
مرے ساتھ میں آیا کرتا تھا اکثر
کنارے پہ تیرے
وہ آخر کہاں ہے؟