عجیب مَنظَر ہے دِل کی چوکھٹ پہ منزلیں نارسأ ملی ہیں
یقیں کے منبر پہ, تیری آنکھیں, مگر بدست ِ دعا ملی ہیں
وہ ایک لَمحہ کہ جِس مِیں مَیں نے مُراد مانگی تھی زندگی کی
تمہاری سانسوں کی ساری کَڑیاں اُس ایک لمحے سے آ ملی ہیں
میں مُنتَظِر ہوں کہ میری آنکھوں پہ تیرے چَہرے کا نُور اترے
تیرے تَخَیُّلٗ میں ڈُوبی کِرنیں دیار ِ مشرِق سے جا ملی ہیں
میں سَبز موسم پہن کے نکلی تھی زِندگی سے نِباہٗ کرنے
تیری وفاٸیں ، گُلال بن کر ، مجھے بَرَنگ ِ جزا ملی ہیں
کوٸی تو شَبنم کا ہار لے کر ، وفا کے صِحرا میں چَل پڑا ہے
بھٹَکتِی پیاسی ہَوا کے آنچل میں خُوشبُوٸیں بے پناہ ملی ہیں
میں مُطمٸن ہوں کہ خَواہشوں نے تمہاری دَھڑکن سنبھال لی ہے
تمہارے لہجے کی شَوخِیوں سے میری اُمنگیں بَجَا ملی ہیں
کوٸی تو لَوح و قَلم سے آگے میرے جَواز ِ سخن کو سمجھے
نگار ِ ہستی کی ساری خوشیاں کسی غزل کی گدا ملی ہیں
ہماری بستی میں شام اُتری تو یاد آیا ہے مجھ کو سِدرہ
نجوم ِشب کو, شمار کرتیں، تمام نیندیں، سزا ملی ہیں!