بہم بے شک کہ مال و زر نہیں ہے
چلو کھونے کا دل میں ڈر نہیں ہے
نظر عادی ہو استبداد کی جب
نیا ہر گز کوئی منظر نہیں ہے
ہمیں حاکم کی مِدح سے حذر ہے
عزیز ہم کو کہ شاید سر نہیں ہے
جبیں جھُکتی ہے رب کے سامنے بس
یہ سجدہ بہرِ سنگ و شر نہیں ہے
بہت مُشکل ہے سچ کی راہ چلنا
یہ راہِ خار ہے مَر مَر نہیں ہے
ریاکاروں سے ہے دُوری ہی اچھی
خوشامد، شے کوئی برتر نہیں ہے
بہت مل جاتے ہیں صورت میں ارفع
حسینوں کا نگر، بنجر نہیں ہے
جہاں چاہیں وہاں عُشّاق ٹہریں
ہے کیا غم، وا، جو اُس کا دَر نہیں ہے؟
غَرَض ہوتی ہے تو مِلتا ہے مُجھ سے
وہ میرا ہے مگر اکثر نہیں ہے
انا کو یار سمجھا تھا خودی ہے
سو اُس کا حال اب بہتر نہیں ہے
صبا لے جاتی ہے پیغام اُن کا
مُیسّر جن کو نامہ بَر نہیں ہے
نہاں رکھتا ہوں طُوفانوں کو دِل میں
جو اندر حال ہے باہر نہیں ہے
بہت کُچھ زیست سے پایا ہے ہم نے
مگر اِک دستیاب سرور نہیں ہے