عشق میں نام پیدا کرنے پر
ٹھہرے کافر یہ کر گزرنے پر
بحر غم کے کنارے ڈوب گئے
لاش تک نہ ملی اُبھرنے پر
تھی مسیحائی بے نیاز اُن کی
زخم بھرتے بھرا نہ بھرنے پر
ناگہانی میں مار دیجے مجھے
رحم آتا ہے اپنے مرنے پر
سٹرتا رہنے دو گورِ فرصت میں
جان جاتی ہے کام کرنے پر
چشمِ مصروف نیند لائی ہے
دفترِ خواب ِ شوق چرنے پر
وصلِ تعطیل ہے کوئے جاناں
اک زمانہ گیا ہیں دَھرنے پر
جالے پڑنے لگے بدن پہ جنیدؔ
وہ ابھی نرم ہیں سنورنے پر
جان تیری گلی کے پاگل کو
ایک پل نہ لگا سُدھرنے پر
تیرا خرموشِ غم ہوا ہلکان
کاٹنے پر بدن کُترنے پر
سبھی مصروف ہیں مرے پیچھے
بس لگائی بجھائی کرنے پر
اے شبِ ہجر ہڈ حرام ہے تُو
اِک صدی ہو گئی بسرنے پر
لگ گئی عمر دِل پہ چڑھتے جنیدؔ
نا ہوئی خرچ آن اُترنے پر