تیرے جلوؤں کے سبھی چاہنے والے دیکھے
عشق نے حسن کے انداز نرالے دیکھے
بزمِ کونین میں تیری ہی نشانی دیکھی
ہستئی ذات میں تیرے ہی حوالے دیکھے
تھا جنوں ایسا کہ رہوار منزل نے کہیں
زخم دیکھا نہ پڑے پاءوں پہ چھالے دیکھے
عیش و عشرت میں یہاں جھوٹ کو پلتےدیکھا
سچ کو پینے پڑے جو زہر کے پیالے دیکھے
اپنی یادوں میں ہے آباد اک ایسا بھی نگر
تیرگی میں جہان صبح کے اجالے دیکھے
اپنے دشمن سے عداوت کا گلہ کیسے ہو ؟
اپنے ہی یار کے ہاتھوں میں جو بھالے دیکھے
خطیبِ شہر کے لہجے میں عاجزی دیکھی
قلب و باطن میں وہی ‘عجب‘ کے جالے دیکھے
یہ ذکرِ نیم شبی، درس و بیاں، خوب مگر
تیرے جزبوں پہ وہی عقل کے تالے دیکھے
حسن پھر چاند ستاروں میں دکھائی نہ دیا
شیخ کے تلوؤں میں وہ نور کے ہالے دیکھے