عشق کا نام دے دیا گیا
Poet: نواب رانا ارسلؔان By: نواب رانا ارسلان, Umerkotشرابی، بہ اخلاق، بد کردار، کیا کیا الظام دے دیا گیا
میرے مدعی کی جانب سے یہ انعام دے دیا گیا
یہ سُرخ آنکھیں دیکھ کر مجھے شرابی نہ سمجھا جائے
یہ تو بس مفلسی کا انجام دے دیا گیا
کیوں انجمن میں اب دل نہیں لگتا میرا
یہ کیسا مجھے خلوتِ نشیں کا کام دے دیا گیا
بد کردار ہوں میں، کہتے ہیں اہلِ تجاہل یہ مجھ سے
کیا کِیا ہے میں نے؟ جو یہ داغ دے دیا گیا
آنکھیں ہیں میری، زمانے کو یہ میں نے بتایا
پھر بھی مجھے دن میں ہی چراغ دے دیا گیا
پوچھتے ہیں مجھے اہلِ بزمِ سُخن کہ تمہیں ہوا کیا ہے؟
نہیں بتاتا کسی کو، مجھے تو یہ راز دے دیا گیا
'' یہ بکھرے بال'' ،، ''یہ الجھا ہوا چہرا''
کمزوریاں تو اپنی تھیں، عشق کا نام دے دیا گیا
میرے الفاظ کو تم پرھ کر غلط مدعا مت نکالنا
پہلے بھی مرے لفظوں کو کیا کیا الفاظ دے دیا گیا
کیا تم نے نہیں دیکھا؟ طلسم اُس کی اداؤں کا
واھ جی واھ ہر ادا کو کیا انداز دے دیا گیا
کیا خواب تھا جو بند آنکھوں نے دیکھا
میری غزل کو کیا خوب ساز دے دیا گیا
سوچتا ہوں چلو اب بدل کے دیکھتے ہیں خود کو
ہر اک کہانی کو اک نیا مدعا آج دے دیا گیا
لکھنا اور لکھ کر جلا دینا یہ مجھے خو سی لگ گئی
کچھ چشمِ نم ہوئی ارسلؔان ، پھر وہی آغاز دے دیا گیا
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






