عشق کر کے گر مجھے سکوں ہوتا تو نجانے کیا ہوتا؟
میں یہی سوچتی ہوں اکثر ‘ یوں ہوتا تو نجانے کیا ہوتا؟
بکھر ہی جاتا پل بھر میں سارا زمانہ شاید
محبت سے محبت کا قانوں ہوتا‘ تو نجانے کیا ہوتا؟
مجبور اپنے ہی ہاتھوں ہو جاتا ہے بشر چاہت میں
جاں لینے کا گر اِس میں جنوں ہوتا‘تو نجانے کیا ہوتا؟
میں نے دیکھا ہے کہ زوال آتا ہے اکثر اُس ماہ میں
گر اِس بار بھی جوں ہوتا ‘ تو نجانے کیا ہوتا؟
ہے اِسمیں بھی راز کوئی‘رہے اِک ہی انداز میں سدا
جیسے ہی جوں کا توں ہوتا‘ تو نجانے کیا ہوتا؟
وہ تو شکر ہے محبت اذل سے ہے ہواؤں کی مانند
گر اِس میں خوں ہوتا ‘ تو نجانے کیا ہوتا؟