عشق کے اسیروں کو کون پوچھتا ہے
ہم جیسے فقیروں کو کون پوچھتا ہے
جو اُداس چہروں پہ ہوتی ہیں واضح
ایسی تحریروں کو کون پوچھتا ہے
جب تمہیں پا کر پا لیں گے سب کچھ
پھر موتی ہیروں کو کون پوچھتا ہے
جو چُپ ہوں طاقتِ گُفتار کے باوجود
ایسی تصویروں کو کون پوچھتا ہے
کرنا ہے تو جگر کے آر پار کرو دوستو
اِن نیم کش تیروں کو کون پوچھتا ہے
امر دوہری دھار رکھتی ہے اُن کی نظر
خنجروں شمشیروں کو کون پوچھتا ہے