Add Poetry

عشق ہے کھیل کھیلنے کے لیے

Poet: جنید عطاری By: جنید عطاری, چکوال

عشق ہے کھیل کھیلنے کے لیے
جیتنے اور ہارنے کے لیے

دمِ رخصت نہ تھا لبوں پہ جنید
اک بہانہ بھی روکنے کے لیے

کاش تیشہ اُدھار دے فرہاد
واسطے گور کھودنے کے لیے

اب چھپانا بھی کیا بھلا تجھ سے
ہے کہاں وقت سوچنے کے لیے

ہر نئی صبح اک نیا دن ہے
بے دلی میں گزارنے کے لیے

گو ترے جاں نثار ہیں پھر بھی
اب لڑے کون جیتنے کے لیے

مجھ کو رکّھا ہوا ہے زخموں نے
چیخنے، خون چاٹنے کے لیے

یاراں! انسان کی ہر اِک کوشش
ہے مقدر سے ہارنے کے لیے

ہر محلے میں ایک ماتم ہے
پر نہیں لوگ پیٹنے کے لیے

آرزو ہے کسی کی زلفوں کی
نوکری ہو سنوارنے کے لیے

کیا فقط درد ہی بنایا ہے
آسماں سے اُتارنے کے لیے

میرے قدموں نے تھک کے بھیجے تھے
راستے اُس کو ڈھونڈنے کے لیے

ہے طلب میری خودسری کو فقط
ناصحا چند ٹوکنے کے لیے

غمِ ہستی نے مار کر ہم کو
گورِ حسرت دی جاگنے کے لیے

رن کو نکلا تو ہوں نہیں معلوم
جنگ ہے کس سے جیتنے کے لیے

اِک گھڑی بھی لکھی ہے فرحت کی
اے خُدا! مجھ سے دِل جلے کے لیے؟

بس پڑھا ہے کتابِ عالم میں
ہیں موافق ستم بھلے کے لیے

میرے حجرے میں رہ گئی دیوار
اور میں سر کو پھوڑنے کے لیے

یاں کوئی ہے ہماری حالت پر
چیخنے اورپُکارنے کے لیے؟

تُو نے انسان کر دیا ایجاد
ایک بھگڈر میں روندے کے لیے

مدعا اب نہیں لبوں پہ جنیدؔ
ہے مگر زہر تھوکنے کے لیے

Rate it:
Views: 539
04 Aug, 2014
Related Tags on General Poetry
Load More Tags
More General Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets