قوت علم سے اٹھاؤ ذرا
عقل پر جو نقاب ہے یاروں
آج گھر گھر میں تنگ دستی ہے
ایک ہم پر عزاب ہے یاروں
آگ دل میں حوس کی بھڑکے گی
دور رہنا شباب ہے یاروں
چھوڑنا چاہتا ہوں اسکو مگر
یہ نہ چھوڑے شراب ہے یاروں
بنکے بھنورا اسے ستاتا ہوں
کیا کروں وہ گلاب ہے یاروں