ہر سوچ سے ہر فکر سے بیزار تھااقبال
اور دینِ محمد کا پرستار تھا اقبال
اے دوستو اقبال تھا کچھ اور طرح کا
مسٹر بھی تھا اور دیں کا طرف دار تھا اقبال
ہر وقت نظر رہتی تھی حالات پہ اس کی
اس قوم کا اک دیدہ ءِ بیدار تھا اقبال
دشمن تھا وہ ہر دشمنِ دیں کا سنو لوگو
بس ایک محمدﷺ کا وفا دار تھا اقبال
خواہش تھی محمدﷺ کی قدم بوسی کی دل میں
یوں عشق ِمحمدﷺ میں گرفتار تھا اقبال
ملت کی زبوں حالی پہ روتا تھا وہ اکثر
ملت کے ہر اک غم کا بھی غم خوار تھا اقبال
یک جہتی ءِ ملت کا جو تھا خواب سہانا
اس خواب کا سب سے بڑا کردار تھا اقبال
شاہیں کی خودی پر بھی بہت ناز تھا اس کو
شاہیں کی طرح خود بھی تو خود دار تھا اقبال
دن رات شغف رہتا تھا قرآن سے اس کو
قرآن کی تعلیم سے سرشار تھا اقبال
روشن تھا ترے دل میں دیا عشقِ نبی کا
اس واسطے تُو مطلعءِ انوار تھااقبال
اس دور کا ہر فلسفہ یوں کاٹا تھا اُس نے
گویا کے چمکتی ہوئی تلوا ر تھا اقبال
اک خواب جو دیکھا تھا حسیں ملک کا اس نے
اس ملک کی بنیاد کا معمار تھا اقبال
اسلام کے جو ہند میں تھے قافلہ سالار
سب قافلہ سالاروں کا سالار تھا اقبال
کیا خوب کہا تو نے وسیم ایک یہ مصرع
اسلام کی شمشیرِ جگر دار تھا اقبال