اقبال سا مرد درویش اب نظر نہیں آتا
فلسفے کو سخن میں ڈھالنے کا کسی کو ہنر نہیں آتا
درویشی کی ایسی راہ کا مسافر تھا وہ
جہاں رستے میں کہیں مقام منزل نہیں آتا
شوق سے عشق کے در کھلتے جاتے تھے
حسن کا نور تو ہر آنکھ میں نہیں سماتا
تخیل کا اڑتا پنچھی ایسی چٹان پر جا بیٹھتا
جہاں شاہینوں سے بھی پہنچا نہیں جاتا
یوں تو بہت نے کی سخنوری دنیا میں
مگر اس کے سخن میں ہے قرآن نظر آتا
آشنائے مزاج فطرت تھا دل اس کا
خودی کی نگہبانی میں ہمہ وقت نظر آتا
اک ستارہ ہے اقبال چمکتا آسماں پر
اہل عشق کو ہے کبھی کبھی نظر آتا