عمر گذری ہے وفا کا حق ادا کرتے ہوۓ
ڈر رہے ہیں پِھر بھی عرضِ مدعا کرتے ہوۓ
ان کی نظروں سے ہیں اوجھل سرخیاں اخبار کی
خوش ہیں شاید اس لیۓ وہ تبصرہ کرتے ہوۓ
بات ساری ایک دِن اپنے ہی سر آجاۓ گی
کب ہمیں معلوم تھا شرحِ وفا کرتے ہوۓ
جرمِ الفت میں تو تھے وہ بھی برابر کے شریک
چل دیۓ تجویز جو میری سزا کرتے ہوۓ
بھوُ ل آۓ ہیں صدائیں اپنی جانے کِس جگہ
ساری دنیا کو وہ اپنا ہمنوا کرتے ہوۓ
توڑتے نہ اِس طرح عہدِ وفا ہم سے کبھی
سوچ لیتے آپ گر عہدِ وفا کرتے ہوۓ
لِکھ لیا ہے ساتھ اپنے نام ہم نے آپ کا
اور گہرا ہاتھ پہ رنگِ حِنا کرتے ہوۓ
اِس قدر جلدی دعا ہو جاۓ گی اپنی قبول
یہ نہ سوچا تھا کبھی ہم نے دعا کرتے ہوۓ