یہ سوچ سوچ کر ہی پریشان ہوگئے
کیونکر رقیب ہم پہ میربان ہوگئے
جس جس نے راہ عشق میں کانٹے بچھائے تھے
منزل پہ ہم کو دیکھ کر حیران ہوگئے
ماضی کی تلخیوں کا ذکر چھیڑ کے وہ خود
اپنے ہی ظلم سن کے پشیمان ہوگئے
نظریں چرا رہے تھے خجالت سے شرمسار
غلطی سے آج وہ میرے مہمان ہوگئے
میرا وجود اب بھی انہیں نا پسند ہے
سچ بول کے وہ خود ہی پریشان ہوگئے
ایماء پہ جنکی ہم کو ستایا گیا یہاں
وہ آج اپنے جبر پر نادان ہوگئے
سوچا تھا جنکا نام بھی لب پر نہ لاؤنگا
وہ بے وفاء ہی غزل کا عنوان ہوگئے
پھر سے قدم بڑھے ہیں اسی راہ کی طرف
درپیش پھر ہمیں وہ ہی سامان ہوگئے
نفرت ہی تھی اگر تو اشہر چھوڑ کر وہ کیوں
رو رو کے تیرے غم میں تھے ہلکان ہوگئے