دیواروں کو کان دے رہے ہیں
ہم پتھروں کو زبان دے رہے ہیں
غیروں سے شکایت ہم کو کیسی
اپنوں کے ہاتھوں جان دے رہے ہیں
عمل کرنے کی ہمت ہم میں نہیں ہے
بس بیان پہ بیان دے رہے ہیں
اپنی نظروں سے بھی گرتے جا رہے ہیں
یہ ہم کس طرف دھیان دے رہے ہیں
عثمان عورت کو آزادی کی آڑ میں
غلط مشورے شیطان دے رہے ہیں