عہد طفل تھا اپنا جو یاد اب نہ جاتی
اُڑتی پتنگ تھی میری شاہین سے بھی اونچی
نازک ہے ڈور اتنی فطرت کی ہوتی یارو
چُھوٹے تو موڑ مشکل، ٹوٹے تو جوڑ مشکل
شب و روز ہم کھڑے تھے پرواز میں پڑے تھے
ہر پل ہنسی تھی جاری خوشیاں بھی اپنی ساری
آلام سے نہ ڈرتے اپنی فکر نہ کرتے
ہفتہ گزر رہا تھا فرصت تھی یار اتنی
ملتی جو ماں کی شفقت بچے کو بچپنے میں
لذت اب کہاں وہ دنیا کی عشرتوں میں
بڑھنے لگی ہماری فکرو فردا ہے جب سے
معلوم تھا نہ ایسے امروز بھول جائیں
دنیا کی بھیڑ ایسی جمگھٹ ہے شورو غل ہے
تنہا یہاں بھی شاہجہان خاموش اس نگر میں