وہ سمجھتا ہے اپنے کو نایاب میں
عیب ہی عیب ڈھونڈھے ہے سرخاب میں
جستجو بس تمھاری سر بزم ہے
اک تلا طم سا ہے چشم بیتاب میں
جب سے تو اے صنم بے وفا ہو گیا
داغ دکھنے لگے مجھ کو مہتاب میں
ہو ہی جائے گا اندازہ گہرا ئ کا
کنکری پھینک کر دیکھو تالا ب میں
کچی بنیاد تھی یہ تو ہونا ہی تھا
بہہ گئ میری بستی بی سیلا ب میں
پارسائ کی تھی جس کی کھائ قسم
کیا خبر تھی وہ ہو گا سزا یاب میں
ہے یہ بزم ادب ۔ کوئے یا راں نہیں
کچھ وضع داری بھی رکھئے آداب میں
کب تلک تنکا دیتا سہارا حسن
آخرش کھو گیا میں بھی گر داب میں