عین مستی میں ہوں دل دنیا سے بیگانہ ہے
کیونکہ اب پیش نظر جلوۂ جانانہ ہے
حشر کے روز ملاقات کا پروانہ ہے
حوض کوثر مرے محبوب کا مے خانہ ہے
چار عنصر کے تراشے کو تو اینویں نہ سمجھ
ذرہ ذرہ مری توقیر میں دیوانہ ہے
اول اول مجھے تخلیق کیا تھا اس نے
عرش کے نیچے کا سارا مرا کاشانہ ہے
بادۂ نور کے دو قطرے ہیں یہ رات اور دن
آنکھ بے انت کی گہرائی کا پیمانہ ہے
جس کو فانوس میں شعلے کی سمجھ آ جائے
اس کے آگے نہ کوئی مجنوں نہ دیوانہ ہے
جسم کا جسم سے کچھ دن کا تعلق ہوگا
روح کا روح سے آغاز کا یارانہ ہے
وصل ہی اصل ہے تحسینؔ پریشاں مت ہو
ہجر آدم سے ہوئے جرم کا جرمانہ ہے