غربت نے چھینے سینگار کیسے کیسے
اور پھر دکھائے مجھے دار کیسے کیسے
ایک تیری خاطر میرے یار میں نے
دل پے کھائے ہیں وار کیسے کیسے
راہِ الفت میں کوئی مجھ سے پوچھے
میں لُٹا ہوں ہر بار کیسے کیسے
کیسے بتاؤں کہ میری غربت نے
گنوائے ہیں مجھ سے یار کیسے کیسے
آیا جب بھی تیسرا شخص بیچ میں
مت پوچھ پھر ٹوٹے اعتبار کیسے کیسے
مشکل وقت ہی تو بتاتا ہے
گرتے ہیں یہاں معیار کیسے کیسے
مجبوریاں چھین لیتی ہیں سر کی چادر
کُمہلاتے ہیں جسم سرِ بازار کیسے کیسے
یہ شکوہِ یادِ یاراں ہے کے میں
شب بھر بِٹھاتا ہوں مئیخوار کیسے کیسے
تجھے کیا خبر احسن وہ بچھڑا ہوا شخص
چھوڑ گیا مجھ میں آثار کیسے کیسے