دُنیا میں جو ، بگاڑ ہے میرا قصور ہے
یہ جو مصیبتوں کا ، پہاڑ ہے میرا قصور ہے
اصلاح کی کبھی سعی کی ہی نہیں میں نے
یہ جتنی بھی مار ، دھاڑ ہے میرا قصور ہے
سب نے سبھی رنگ کے گُل ہیں کِھلاۓ
چمن میں جتنا ، جھاڑ ہے میرا قصور ہے
پرندے تو اب بھی آتے جاتے ہیں بےخطر
سرحدوں پہ یہ جو ، باڑ ہے میرا قصور ہے
فَضا میں سُر سنگیت بلبل کی نَوا سے ہیں
اور جتنی چیخ و ، چنگھاڑ ہے میرا قصور ہے
ہر بندھن میں ربط تمہارے ہی دم سے ہے
رشتوں میں جو ، دراڑ ہے میرا قصور ہے
اخلاق خدا تو منتظر ہے ہر گھڑی وِصال کا
درمیاں جو اب تک ، آڑ ہے میرا قصور ہے