میں نا انصافئ منصف کے نذرانے سے ناخوش ہوں
میں جشنِ فتح پر ناجانے پچھتانے سے ناخوش ہوں
میں کھلتا اک چمن سینے میں مرجھانے سے ناخوش ہوں
میں اپنے غم کی زد، سگریٹ سلگانے سے ناخوش ہوں
منازل کامیابی کی سبھی طے کر چکا ہوں پر
میں آغوشِ خوشی میں ڈوبے کاشانے سے ناخوش ہوں
میں نے لوگوں کو دیکھا ڈوبتے رنجش کے دریا میں
میں ساحل پر اکیلا بیٹھے رہ جانے سے ناخوش ہوں
ہیں اعلیٰ ظرف ہر منظر کی جو تصویر لیتے ہیں
میں دل کے یادِ بچپن یاد دلوانے سے ناخوش ہوں
ہیں گُل چھرّے گلستاں میں اسی برسات کے باعث
میں ہمدردی میں، اشکِ ابر بہہ جانے سے ناخوش ہوں
بڑی اپنائیت سے وہ ملا پہلے پہل اور اب
نبھا کر وعدہ ناخوش ہوں، اُسے پانے سے ناخوش ہوں
میں تنہائی میں خوش تھا، دوستی کرلی فلانے سے
علیٓ خوش ہوں مگر اس دوست انجانے سے ناخوش ہوں