غزل کی دھڑکن سخن کی روشن جبین ہُوں میں
میں استعارہ نہیں , مکمل یقین ہُوں میں
وفا کی فصلوں کی آبیاری سرشت میری
صداقتوں کی محبتوں کی زمین ہُوں میں
فلک سے اُوپر بھی دیکھوں پاتال میں بھی دیکھوں
عجیب وحشت مزاج حساس بین ہُوں میں
غریقِ جلوت خیال میں ماوریٰ نظر سے
کہ ظاہراً ہر نظر میں خلوت نشین ہوں میں
کشش زمیں کی نہ کھینچ پائے وجود میرا
زمین سے دُور ہُوں خلا کی مکین ہُوں میں
مجھے تراشا ہے جس نے عاشی اُسی نظر نے
یقیں دیا ہے سخن کی صورت حسین ہُوں میں