اِن مُفلسی کے شاہکار ، نصیبوں کو مٹادو
غُربت نہیں مِٹتی تو ، غریبوں کو مٹادو
اقتدار میں آکر بھی کچھ کرنے سے ہوں قاصر
ایسے سب ہی وزارتی ، مَنصبوں کو مٹا دو
مجبوروں کے لہو سے جن کی دکاں چمکے
تم ایسے حکیموں کو ، طبیبوں کو مٹا دو
جنہیں سُن سُن کر ابتک ٹوٹتی رہی یہ اُمت
اُن سبھی اماموں ، خطیبوں کو مٹا دو
قلم جن کے فقط شاہ کے اشاروں پہ ہوں چلتے
ایسے سبھی شعرا و ، ادیبوں کو مٹا دو
اخلاق دیکھے گی جب تک آنکھ ، زباں بولتی رہیگی
سچ سے اگر ہے نفرت تو مرے ، لبوں کو مٹادو