غم کی ترتیب سلیقے سے لگا سکتا تھا
یعنی میں روز ترا ہجر منا سکتا تھا
صبر نے چیخ گلے سے نہیں آگے بھیجی
ورنہ دیوانہ بہت شور مچا سکتا تھا
غیرت عشق نے پتھر کا بنایا مجھ کو
ورنہ میں خاک وہاں اڑ کے بھی جا سکتا تھا
تنگیٔ دامن صد چاک ترا کیا رونا
میں نمائش میں فقط زخم دکھا سکتا تھا
تیری نفرت سے اگر تھوڑی سی فرصت ملتی
میں محبت میں بہت نام کما سکتا تھا
آپ بیکار سمجھ کر جسے چھوڑ آئے ہیں
اک وہی شخص مری جان بچا سکتا تھا
اس کی معصوم طبیعت کی حیا نے روکا
ورنہ میں اس کو بڑے خواب دکھا سکتا تھا
یہ تو اس چہرۂ پر نور کا جادو سمجھو
ورنہ درویش کہاں جال میں آ سکتا تھا
یوں ہی زحمت سے اکیلے مجھے برباد کیا
زندگانی میں ترا ہاتھ بٹا سکتا تھا
تم ہی تحسینؔ مری قدر نہیں کر پائے
میں تو وہ تھا جو گیا وقت بھی لا سکتا تھا