غم کے ماروں کو ہنسایا جائے
روٹھنے والوں کوآج منایا جائے
جن لوگوں کی خوشیاں سوچکی ہیں
مسرتوں کا شربت پلا کرجگایاجائے
آج تنہائی مجھے کاٹنےکو دوڑتی ہے
اب ایسےعالم میں کسےبلایا جائے
ہجر کےموسم میں کیسےمسکراتےہیں
ہمیں بھی یہ فلسفہ سمجھایا جائے
اصغر کی زیست تو غم ہی ہیںجاناں
سوچتا ہوں کسے ہمراز بنایا جائے