فتنوں سے پُر زمانہ آ گیا ہے
دیکھو تو حشر ہر سو ہی بپا ہے
سوچ کر حیراں ہوتا ہوں میں کبھی
وحشی تو آدمی ہی خود بنا ہے
ہر سو ہے نفسہ نفسی کا ہی عالم
جذبہ ایثار کا کہاں رہا ہے
ملتا ہے کوئی غَرض سے ہی کسی سے
کوئی بھی بے غرض کبھی ملا ہے
الو تو اپنا جب سیدھا کرنا ہو
ملنا تو اب اسی کے لئے روا ہے
ایسے ظلمت کے دور میں ہم نے
کچھ تو روشن چراغ کر دیا ہے
نہ کبھی زیاں کسی کا بھی ہو
ہم نے تو درس ایسا بھی دیا ہے
جو زباں پر ہو وہ ہی دل میں رہے
ہم نے آہنگ زبان و دل کیا ہے
اثر نے ایسے پر فتن دور میں
تو یقیں غیب پر جما دیا ہے