گرچہ میری وفا میں کچھ فتور نہیں ہے
پھر بھی تمہیں میری وفا منظور نہیں ہے
ہم تمہارے ہو کے بھی تم کو نہ پا سکے
یہ میری قسمت ہے تمہارا قصور نہیں ہے
وہ امتحان لے کر نمبر نہیں دیتے
گرچہ ممتحن کا یہ دستور نہیں ہے
وہ کونسی ادا ہے جو دیوانہ کر گئی
یہ چشم نازنیں ادا کچھ اور نہیں ہے
جس روز سے دریا ہمیں مطلوب نہ رہا
صحرا میں سرابوں کا ظہور نہیں ہے
گو کہ شاعر نہیں شاعری کرتے ہیں
آداب سخن میں ابھی عبور نہیں ہے
عظمٰی تیری نگاہ میں کیسا خمار ہے
تیری طرح سے کوئی مخمور نہیں ہے