میں رہا
زندگی کے سفر میں
تنہا مسافر
کئی راہگزاریں گزر گئیں
کئی نو بہاریں گزر گئیں
کئی ہم سفر تھے بچھڑ گئے
میرے دل کے تار اجڑ گئے
یہ خزاں رسیدہ ہے زندگی
بہت آبدید ہ ہے زندگی
کئی کروٹیں بدلوں مگر
کسی پہلو ملے نہ سکوں مگر
ہے بہار میں بھی خزاں کا رنگ
لب آب جو بیاباں کا رنگ
میں جو آ گیا یہاں لوٹ کر
نہ سمجھو کہ اب زندہ ہوں میں
ان دیکھی وادیوں کی طرف
پر تولتا پرندہ ہوں میں
میری منزلیں ہیں جانے کہاں
نجانے کہاں بھٹکوں گا اب
جو ملا کہیں کوئی ہم سفر
سر انکار میں جھٹکوں گا اب
کہ مجھے راس آیا نہ یہ جہاں
میں بھٹکا نہیں ہوں کہاں کہاں
ہیں اداس دل کی یہ دھڑکنیں
کہاں! کسے کہوں؟ ہیں جو الجھنیں
کیوں کہ میں رہا
زندگی کے سفر میں
تنہا مسافر