چھپائیں کتنا بھی وہ اپنا پیکر ، دیکھ لیتا ہوں
میں ان کو عشق کے جذبوں میں ڈھل کر دیکھ لیتا ہوں
عطا کی ہے خدا نے تھوڈی سی جوہر شناسی بھی
‘ میں اک شبنم کے قطرے میں سمندر دیکھ لیتا ہوں ‘
ہے فطرت میں قناعت ‘ تو فقط چکھتا ہوں تھوڑی سی
مزہ آیا اگر چکھ کر ، تو پی کر دیکھ لیتا ہوں
خدا محفوظ رکھتا ہے کرم سے خیر خواہوں کے
کہ ان کی آستینوں کے میں خنجر دیکھ لیتا ہوں
میں اپنی تنگدستی کو عیاں ہونے نہیں دیتا
بڑھانا ہو اگر پاؤں ، تو چادر دیکھ لیتا ہوں
تکلم سے ہی کر لیتا ہوں بس پہچان شجروں کی
میں نابینا ہوں لیکن تم سے بہتر دیکھ لیتا ہوں
نھیں پردیس میں جب سونے دیتی یاد بچوں کی
نم آںکھوں سے فلک کے ماہ و اختر دیکھ لیتا ہوں
بھلانے کو ‘ حسن ‘ میں اضطراب دور حاظر کو
بند آںکھوں سے حسیں یادوں کے منظر دیکھ لیتا ہوں