صُبح منسُوخ ہوئی شَب کے اِشارے نہ گئے
اور ہم لوگ صلیبوں سے اُتارے نہ گئے
جانے کیا سانحہ گُزرا ہے پسِ شہرِ مُراد
لوگ موجود تھے اور نام پُکارے نہ گئے
کیا کہیں کیسے وہ تنہائی کے موسم تھے کہ جو
تُم سے جھیلے نہ گئے ہم سے گُزارے نہ گئے
اپنے ہی پاؤں چلے اپنے ہی سائے مِیں رہے
ہم جہاں تک گئے اوروں کے سہارے نہ گئے
کِس کی پہچان کریں ہم کِسےمُجرم سمجھیں
اصل چہرے تو نگاہوں سے گُزارے نہ گئے
اِک اُچٹتی سی نظر چاند پہ ڈالی تھی " سلیم "
آج تک آنکھ کی دہلیز سے تارے نہ گئے