سایہ میرے ارمانوں کا قاتل نکلا
حق تھا جو رشتہ وہی باطل نکلا
جس نے دی گلشن کو دلربائی کی دولت
پھول وہ در در کا سائل نکلا
چھوڑ دیا پہاڑوں نے نظاروں سے ملنا
لہروں کا قاتل جب سے ساحل نکلا
لٹ گیا جس سے اہلِ انجم کا قافلہ
چاند بھی اس سازش میں شامل نکلا
کیسے بیدار شبِ دیجور ہوتی وحید
دن ہی اجالوں سے جب غافل نکلا