میر دریا ہے سنو شعر زبانی اسکی
اللہ اللہ رے طبعیت کی روانی اسکی
مینہ تو بوچھاڑ کا دیکھا ہے برستے تم نے؟
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اسکی
بات کی طرز کو کوئی دیکھو تو جادو تھا
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اسکی
سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
سو گئے تم نہ سنی آہ! کہانی اسکی
متثیے دل کے کئی کر کے دیے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اسکی
اب کئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل
حیف صد حیف! کہ کچھ قدر نہ جانی اسکی