آنکھوں نے دیا ہے قرب ہمیں
دل میں اتر کے انوار ہوئے ہیں
ہے الجھایا خزاں کی کرستانی نے
سنبھلے ہیں ذرا تو انوار ہوئے ہیں
اے دیوانہ وصف چل قمر کو جلائیں
شعلے تو کئی بار یہاں گلزار ہوئے ہیں
آنکھوں کے تبسم سے ذرا مرہم کر دے
دل جنکے تیرے لہجے سے بیزار ہوئے ہیں
دنیا میں رضا کیا خوب ترقی ہے
پتنگے بھی یہاں نسب دار ہوئے ہیں